قرآن مجید کا رسمِ عثمانی کے مطابق ہونا لازم ہے

 

رشید احمد فریدی‏، مدرسہ مفتاح العلوم تراج

 

”القرآن“ جس کلام الٰہی کو کہاجاتا ہے اہلِ علم جانتے ہیں کہ وہ نظم (لفظ) اور (معنی) کے مجموعہ کا نام ہے، نظم اصل ہے، معنی اس کے تابع ہے، نظم ہی وہ شئے ہے جس کی قطعیت پر خود ”القرآن“ بذاتہ قطعی دلیل اور شاہدہے اوراس پر اہلِ اسلام کا اجماع متوارث ہے۔ ”لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید“ (قرآن) اور نظم ہی فصاحت وبلاغت کے اس اعلیٰ معیار کا حامل ہے کہ عرب اہل لسان بھی اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہیں اور ذلک الکتاب لاریب فیہ کے ساتھ ولن تَفْعَلُوْا کی مہر ثبت ہے۔

 یہ نظمِ قرآن اپنے نزول میں ترتیل اور اختلافِ قراء ت کا بھی حامل ہے اور باعتبار کتابت مخصوص طرزِ خط سے متصف ہے گویا قرآن پاک اپنے ظاہر نظم میں تین چیزوں سے آراستہ ہے: (۱)عربیت (۲) اختلافِ قراء ت (۳) رسم خط المصحف۔

(۱) قرآن کریم خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے، انا أنزلنٰہ قراٰنًا عربیًا، بلسان عربی مبین، وغیرہ آیات شاہدِ عدل ہیں اور ہر لکھا پڑھا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ تمام خواندہ اقوام کے نزدیک بھی معلوم اور مسلم ہے، پس قرآن مجید کا عربیت کے مطابق ہونا اولین شرط ہے اور چونکہ قرآن کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے تمام بلغائے عرب کے معیاری کلام سے بھی فوقیت رکھتا ہے؛ اس لیے وہ قواعدِ عربیت سے کلی مطابقت بھی رکھتا ہے، وہ یہ کہ اگر کسی مقام پر جمہور ائمہ عربیت کے قواعد سے موافقت نظر نہ آئے تو وہاں خود قرآن ہی بالادست ہے۔

(۲) چونکہ قرآنِ پاک کا نزول ترتیل کے ساتھ ہوا ہے اور قرأتِ متواترہ ومشہورہ بھی رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ طریقِ تواتر منقول ہونے کی وجہ سے یقینی ہے، اگرچہ حدیث اُنْزِلَ الْقُوْآنُ عَلیٰ سَبْعَةِ أحْرُفٍ میں ”سبعة احرف“ کی مراد میں متعدد اقوال ہیں، راجح قول کے مطابق وہ سات وجوہ مراد ہیں، جن پر دس قراء تیں مبنی ہیں اور یہ متواتر بھی ہیں، اس پر اہلِ فن کا اتفاق ہے اس میں ذرہ برابر بھی کسی کو تردد یا انکار نہیں ہے، پس قرأتِ متواترہ ومشہورہ میں سے کسی ایک کا انکار موجبِ فسق ہے اور مفضی الی الکفر بھی ہوسکتا ہے اور مصاحفِ عثمانیہ قراء تِ مختلفہ مشہورہ کے حامل تھے، اس پر بھی ائمہٴ رسم وقراء ت کا اتفاق ہے؛ لہٰذا کسی قرأت کے قرآن ہونے کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول متواتر قرأتوں میں سے کسی ایک کے مطابق ہونا بھی شرط ہے۔

(۳) اور باعتبارِ کتابت، قرآن کریم کا رسم (ضابطہٴ خط مصاحف عثمانیہ) کے مطابق ہونا بھی شرط ہے؛ اس لیے کہ ادا وتلفظ اوراختلافِ قرأت جس طرح توقیفی وسماعی ہے، اسی طرح ”ذلک الکتٰب لا ریب فیہ“ میں ”الکتٰب“ کی کتابت بھی توقیفی وسماعی ہے؛ اس لیے کہ آیات وکلماتِ قرآنیہ کو نزول کے بعد متصلاً ارشادِ نبوی کے مطابق لغتِ قریش کے طرزِ کتابت میں ضبط کرلیا جاتا تھا اور لغتِ قریش افصح لغات العرب ہونے کی وجہ سے اس کا اسلوب احسن وامثل اور اوفق تھا، اسی وجہ سے خلیفہٴ راشد حضرت عثمان غنی نے کاتبینِ مصحف کو ہدایت دیتے ہوئے حکم فرمایا: اِذَا اخْتَلَفْتُمْ أنْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فی شيء لک القرآن فَاکْتُبُوْہُ بِلُغةِ قُرَیْشٍ فَانَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ بِلِسَانِھِمْ نیز مصاحفِ عثمانیہ کا مرجع مصحفِ صدیقی ہے، جو عرضہٴ اخیرہ کے مطابق لکھاگیا ہے اور عرضہٴ اخیرہ لوحِ محفوظ کے مطابق واقع ہوا ہے تَرْتِیْبُ السُّوَرِ ھٰکَذا ھُوْ عِنْدَ اللہ فِيْ اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ عَلٰی ھٰذا التَّرْتِیْبِ وَعَلَیْہِ کَانَ یُعْرَضُ علی النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم کُلَّ سَنَةٍ مَا کَانَ یَجْتَمِعُ عِنْدَہ مِنْہُ وَعُرِضَ عَلَیْہِ فِی السَّنَةِ الَّتِيْ تُوُفِّيَ فِیْھَا مَرَّتَیْنِ (فتح الباری:۵۲/۹) اور مصحف صدیقی کو جن صحائف سے نقل کرکے جمع ومرتب کیا گیا وہ نوشتہ لغتِ قریش کے مطابق ہی لکھاگیا اور یہ نسخہ مکمل قرآنِ پاک کا اولین سرکاری دستاویزی نسخہ تھا۔ اَلصَّحَابَةُ أَجْمَعُوا مِنَ الدُّفَّتَیْنِ الْقُرْآنَ الَّذِيْ أَنْزَلَ اللہ عَلٰی رَسُولِہ مِنْ غَیْرِ أنْ زَادُوْا أوْ نَقَصُوا مِنْہُ شَیْئًا فَکَتَبُوْہُ کَمَا سَمِعُوْہُ مِنْ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ غَیْرِ أنْ قَدَّمُوْا شَیْئًا أوْ أَخَّرُوْا أَوْ وَضَعُوْا لَہ تَرْتِیْبًا لَمْ یَأْخُذُوْا مِنْ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (البیان في علوم القرآن، ص:۲۷۴)۔ پھر اس کے مطابق چار ؛ بلکہ سات نقول تیار کی گئیں تو ان میں اسلوب وطریقِ کتابت وہی رکھا گیا، جس کا التزام واعتنا خلیفہ اوّل نے فرمایا تھا اور اسی طریقہٴ خط پر صحابہ وتابعینِ عظام کا اجماع ہوگیا؛ کیونکہ اگر لغتِ قریش (رسم المصحف) کا خصوصی اہتمام نہ کیا جاتا تو امت یہود ونصاریٰ کی طرح وحیِ الٰہی سے محروم ہوجاتی، پس باعتبارِ کتابت مصحف شریف کے قرآن ہونے کے لیے مصحفِ عثمانی کے مطابق ہونا شرط قرار پایا، جس کو رسمِ عثمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ جس طرح مصحف شریف میں آیتوں اور سورتوں کا جمع وترتیب توقیفی وسماعی ہے، اسی طرح اس کا طرزِ خط وضابطہٴ کتابت بھی توقیفی واجماعی ہے۔

اور چونکہ قرآنِ کریم کے قرآن ہونے کے لیے مذکورہ تینوں شرطوں کا ہونا علمائے اسلام اور اہلِ فن کے نزدیک متفق علیہ اور اجماعی ہے اوراجماع کے بعد بعض اہلِ علم کا ان میں سے کسی شرط کو بدرجہٴ شرط تسلیم نہ کرنا، اجماع میں مضر نہیں ہے، جیساکہ قاضی ابوبکر باقلانی نے اپنی کتاب ”الانتصار“ میں اس شرط اور تقیُد کو تسلیم نہیں کیا ہے وہ خرقِ اجماع ہے جو ساقط الاعتبار ہے، جیساکہ متعدد مسائل اجماعیہ میں کسی خاص اہلِ علم کا اختلاف قابل اعتنا نہیں رہا۔ نیز جانناچاہیے کہ ان تینوں امور کا ہونا اس وقت سے ہے، جب سے صحابہٴ کرام نے قرآنِ پاک رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ حاصل کیا ہے اور جس زمانہ میں مصاحفِ عثمانیہ لکھے گئے اور مختلف امصار میں بھیجے گئے۔ مذکورہ شرائطِ ثلثہ کا ذکر صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کو امام جزری نے بیان کیا ہے؛ بلکہ ان سے پہلے ائمہٴ فن علامہ سخاوی، زرکشی، ابن حجر نے اور ان سے پہلے محمدمکی بن طالب، علامہ دانی اور ابوبکر بن الانباری نے اور ان سے بھی پہلے علومِ قرآنیہ کے سب سے پہلے باضابطہ مصنف اور امام الائمہ علامہ ابوعبیدہ قاسم بن سلام۲۲۴ھ نے بیان کیا ہے (رسم المصحف:۵۳۲)

شیخ ابوعبداللہ محمد بن شریح اندلسی متوفی ۴۷۶ھ فرماتے ہیں:

(۱) لَابُدَّ مَن توافر ثلثة شروط اجمع علیہا علماء ھذا الفن․․․ وأجمعوا علی لزوم اتباع رسم المصاحف العثمانیة فی الوقف ابدالا واثباتا وحذفًا ووصلًا وقطعًا (مقدمہ الکافی فی القراء ت السبع)

(۲)         واشار أبو عبید الی ھذہ الضوابط الثلاثة في کتابہ ”فضائل القرآن“ بقولہ: انما نریٰ القراء عرضوا علی أھل المعرفة بھا ثم تمسکوا بما علموا منھا مخافة ان یرفعوا عن ما بین اللوحین بزیادة أو نقصان وبھذا ترکوا سائر القرائات التی تخالف الکتاب ولم یلتفتوا الی مذاھب العربیة فیھا اذا خالف ذٰلک خط المصحف وان کان العربیة فیہ اظھر بیاناً وراَوْا تتبع حروف المصاحف وحفظھا عندھم کالسُّنَّةِ القَائِمَةِ التی لا یجوز لا حد ان یتعداھا

(۳)         واکثر العلماء بعد أبي عبید من ذکر ھذہ الارکان الثلاثة بعبارات متقاربة لا تختلف عما ذکرہ أبوعبید فیما نقلہ عنہ أبو بکر الانباری (رسم:۵۳۳)

(۴)         قال مکی: وأکثر اختیاراتھم انما ھو فی الحرف اذا اجتمع فیہ ثلثة اشیاء قوة وجھہ فی عربیة وموافقتہ للمصحف واجتماع العامة علیہ ثم بین ان المقصود بالعامة ہو ما اتفق علیہ اہل المدینة واھل الکوفة وقیل ما اجتمع علیہ أھل الحرمین

(۵)         واشار الی ھذہ الارکان الثلاثة للقرائة أبو عمرو الدانی ونقل ما قالہ مکی فی ارکان القرأة الصحیحة کل من عَلَم الدین السخاوی، والزرکشی، وابن حجر ثم جاء من انتہی الیہ علم القرائة شمس الدین أبو الخیر محمد ابن الجزری متوفی ۸۳۳ھ وافاض في بیان أرکان القرائة الصحیحة وقال: کل قرائة وافقت العربیة ولو بوَجْہٍ ووافقت احد المصاحف العثمانیة ولو احتمالا وصح سندھا فھي القرائة الصحیحة التی لا یجوز رَدُّھا (ص۵۳۴)

    پھر یہ کہ رسمِ عثمانی بھی اعجازِ قرآن میں شامل ہے یعنی یہ بھی قرآنِ پاک کا ایک مستقل معجزہ ہے، صاحب ”خلاصة الرسوم“ امام کسائی کا قول نقل کرتے ہیں: فی خط المصحف عجائبُ وغرائبُ تَحَیَّرَ فیھا عقولُ العُقلاء وعَجَزَتْ عنھا اٰراءُ الرجالِ البلغاءِ وکما انّ لفظَ القرآنِ معجِزٌ فکذلک رسمُہ خارجٌ عن طوقِ البشر (نثر۱۲/۱) چونکہ قرآن مجید کے رسم الخط میں جو اسرار پوشیدہ ہیں، وہ قرآن مجید کے ساتھ مخصوص ہیں اور یہ رسم الخط قرآن کے سوا کسی کتاب سماوی میں پایا نہیں جاتا۔ اس رسم الخط کی شان شروع سورتوں کے حروفِ مقطعات کی سی ہے، اگر اس کو صحابہٴ کرام کی اصطلاح قرار دیا جائے تو قرآن مجید پر سے اعتماد ہی اٹھ جائے گا (العیاذ باللہ) قاری عبدالرحمن پانی پتی شرح عقیلہ میں لکھتے ہیں: ان الکلامَ اللفظیَّ کما ھو معجِزٌ وفیہ آیاتٌ محکمات ومتشابھات کذلک الرسمُ مُحْکَمٌ حیث یوافقُ المرسومُ الملفوظَ ومتشابہ حیث یواقفہ ولا یعلم توجیھَہ وتاویلَہ الا اللہ ورسولہ و ورثتُہ (ص۱۴) پس قرآن اپنے اسلوبِ عربیت میں معجزہے، اسی طرح رسم کے اعتبار سے بھی معجز ہے، لہٰذا رسمِ مصحف کا اتباع ضروری ہے، اس کے خلاف کرنا جائز نہیں۔

اسلاف میں سے بعض اہلِ علم کے بارے میں امام جزری نے واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کے لیے رسمِ عثمانی کو شرط نہیں مانتے تھے؛ لیکن آخر کار ان کو اپنے نظریہ سے رجوع کرنا پڑا اور اپنے زمانہ کے امام فن کے سامنے توبہ اور استغفار کیا اور اپنے رجوع کا اعلان کیا اور رسمِ عثمانی کی شرطیت کا اظہار فرمایا۔

راقم الحروف کو کچھ مدت پہلے اپنے ملک کے ایک بڑے نامور اہلِ علم سے ملاقات اور بالمشافہ گفتگو کا اتفاق ہوا، موصوف کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ رسمِ عثمانی کی مطابقت کو فی نفسہ شرط کے درجہ میں تسلیم نہیں کرتے؛ بلکہ بہ قول ان کے ”تسہیلاً للامة“ محض انتظامی طور پر اتفاق ہوگیا ہے اور وہی نقل در نقل چلا آرہا ہے۔

موصوف کا یہ خیال صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اختلافِ قرأت میں ”تسہیل للامة“ منصوص ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ایک سے زائد طریق سے پڑھنے کی اجازت طلب فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مرحمت فرمائی، جیساکہ ”سبعة احرف“ والی متواتر حدیث اور اِس نوع کی دیگر احادیث شاہد ہیں، اس کے برخلاف رسم میں آثار واعمالِ صحابہ سے تخصیص وتعیین منقول ہے۔ پس اگر رسمِ مصحف میں بھی تسہیل مقصود ہوتی تو عقلاً وفطرتاً لغتِ قریش پر حصر نہ ہوتا؛ بلکہ طرزِ قرأت میں توسع کی طرح طریقہٴ کتابت میں بھی وسعت ہوتی؛ حالانکہ اہلِ علم وفن جانتے ہیں کہ طریقہٴ کتابت میں تحدید کے نہ ہونے سے ہی مستقبل میں اختلافِ ضلالت کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا تھا۔ اسی لیے حضرت عثمان غنی نے رسمِ مصحف میں لغتِ قریش پر حصر کو ضروری قرار دیا اوراس کی دلیل کاتبین مصاحف سے آپ نے جو بیان فرمائی، وہ یہی ”فَاِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ“ تو ہے جس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ کلمات قرآنیہ کا طرزِ خط نزولِ قرآن کے موافق ہے یعنی رسمِ عثمانی پر صحابہ وتابعین کا اجماع فقط انتظامی طور پر نہیں ہے؛ بلکہ لوحِ محفوظ میں مکتوب قرآن پاک کے ساتھ مطابقت کی وجہ سے من جانب اللہ ہے؛ لہٰذا رسمِ عثمانی کی مطابقت فی نفسہ شرط ہے۔ بہرحال علمائے امت اور ائمہ رسم وقراء ات کی تصریحات کے مطابق مذکورہ بالا تینوں امور قرآنِ کریم کے لیے شرط ہیں، پس جس طرح ”قرأتِ ثابتہ“ کے خلاف پڑھنا جائز نہیں، اسی طرح رسمِ عثمانی کے خلاف لکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر صرف عربیت کے مطابق ہونا شرط ہوتا تو دنیا کے مشہور خطاط ابن مقلہ، ابن بواب اور یاقوت مستعصمی یا دیگر خطاط کے لکھے ہوئے مصاحف امت میں رائج ہوتے؛ لیکن وہ رسمِ عثمانی کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے امت میں مقبول ومتداول نہ ہوسکے۔

دوسرے رسم الخط میں قرآن لکھنے کی ممانعت

امام اشہب فرماتے ہیں کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص قرآن لکھوانا چاہتا ہے تو کیا مصحف اس خط میں لکھ سکتے ہیں، جو لوگوں کے ایجاد کردہ اور رائج ہیں، امام مالک نے فرمایا نہیں، قرآن تو بس پہلے رسم الخط (رسم عثمانی) میں ہی لکھا جائے گا۔ ھَلْ یُکْتَبُ المصحفُ عَلٰی مَا أحْدَثَہُ الناسُ مِنَ الْہِجَاءِ فقال: لا اِلَّا علی الکَتَبَةِ الأولٰی (المقنع، ص:۹) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مصحف عثمان کے خط (رسم الخط) کے مخالفت کرنا حرام ہے۔ (اتقان،ص:۲۱۳) علامہ ابوعمروالدانی فرماتے ہیں کہ علمائے امت میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں ہے۔ (المقنع، ص:۹) صاحب کشاف علامہ زمخشری لکھتے ہیں: وکان اتباعُ خطِ المصحفِ سنةً لا تخالف (مفتاح السعادہ:۱/۹۴) مصحفِ عثمانی کے خط کا اتباع کرنا ایسا دستور ہے، جس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی امام بیہقی سے نقل کرتے ہیں مَنْ یکتبُ مصحفًا فینبغي أن یُحافِظَ علی الہجاءِ الذي کتبوا بہ تلکَ المصاحفَ ولا یخالِفُھم فیہ ولا یُغَیِّرُ مما کتبوہ شیئًا فانھم کانوا أکثرَ عِلْمًا وأصدقَ قَلْبًا ولسانًا وأعظمَ أمانةً فلا ینبغی أن نَّظُنَّ بأنفسنا استدراکا علیھم (اتقان عن البیہقی فی شعب الایمان) یعنی جو شخص مصحف شریف لکھنا چاہتا ہے تو چاہیے کہ اس رسم الخط کی پابندی کرے جس سے صحابہٴ کرام نے مصاحف عثمانیہ لکھے ہیں، ان کی مخالفت نہ کرے اور نہ ان کی لکھی ہوئی کسی چیز میں کوئی ادنیٰ تغیر کرے؛ اس لیے کہ وہ حضرات پوری امت میں سب سے زیادہ علم والے اور قلب وزبان کے اعتبار سے سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امانت دار تھے، پس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر ان پر استدراک کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ قال احمد بن حنبل یَحْرُمُ مخالفةُ خطِ مصحفٍ عثمانی في ”واو“ أو ”یاء“ أو ”الف“ أو غیر ذلک (مفتاح السعادة: ۳۳۶/۲)۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: خط مصحفِ عثمان کی مخالفت کرنا واویا یاء یاء الف وغیرہ میں حرام ہے؛ بلکہ علامہ برہان الدین ابراہیم بن عمر جعبری متوفی ۷۳۲ھ لکھتے ہیں رسم المصحف توقیفیٌّ ھو مذھبُ الأربعة یعنی قرآن کریم کا یہ رسم الخط توقیفی اور سماعی ہے، یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے۔ (شرح العقیلہ) محدث وقاری عبدالرحمن پانی پتی اپنے رسالہ ”تحفہٴ نذریہ“ میں لکھتے ہیں: اعلم ان رعایةَ رسمِ الخط العثمانی واجبٌ والکتابة بخلافہ اثْم ولھذا وَجَبَ علی کُتَّابِ المصاحف ان یتعلموا رسمَ الخط العثمانی والَّافانْ غَلَطُوا وخَالَفُوہ فیستحقون العذابَ (افضل الدرر۳)

علامہ ظفراحمد تھانوی لکھتے ہیں جب عربی زبان میں دوسرے رسم الخط میں قرآن کا لکھنا جائز نہیں ہے؛ جب کہ اس میں وہ سارے حروف موجود ہیں جو خطِ عثمانی میں موجود ہیں تو پھر اس کے علاوہ دوسری زبان میں جس میں تمام حروف کی مکمل رعایت ہوہی نہیں سکتی ہے، لکھنا کب جائز ہوگا (امدادالاحکام ۴۴/۴)

فقیہ الامت مفتی اعظم ہند ودارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں:

․․․․․․ عباراتِ منقولہ سے معلوم ہوا کہ مصحف عثمانی کے رسم الخط کی رعایت ومتابعت لازم وضروری ہے اور اس کے خلاف لکھنا اگرچہ وہ عربی رسم الخط میں ہی کیوں نہ ہو ناجائز اور حرام ہے اور اس مسئلہ پر ائمہٴ اربعہ کا اتفاق ہے؛ بلکہ علمائے امت میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے تو یہ اجماعی مسئلہ ہوا پھر غیرعربی (بنگلہ، ہندی، گجراتی) وغیرہ رسم الخط یعنی (لیپی) میں لکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اس میں تو جواز کا کوئی احتمال ہی نہیں، بعض حروف عربی کے ساتھ مخصوص ہیں، جیسے: طاء، حاء، ضاد، ظاء، وغیرہ۔ یہ حروف دوسری زبان میں استعمال ہی نہیں ہوتے، ان کے لیے ان زبانوں میں نہ صوت ہے نہ شکل وصورت ہے تو لامحالہ ان کی جگہ دوسرے حروف لکھے جائیں گے اور یہ عملاً تحریف وتغییر ہے جو کہ حرام ہے؛ البتہ اگر متنِ قرآن کریم تو عربی اصل رسمِ خط میں ہو اور اس کا ترجمہ وتفسیر دوسری زبان میں تو شرعاً مضائقہ نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۴۶/۱)

مذکورہ تحقیق اورفتاویٰ سے بہ خوبی واضح ہوگیا کہ قرآن مجید کو خواہ چھوٹی سورت ہی کیوں نہ ہو، غیرعربی (لیپی) میں لکھنا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا قرآن کے عربی نظم (عبارت) کے بغیرمحض گجراتی، ہندی یا بنگالی وغیرہ رسم الخط میں قرآنِ پاک کا لکھنا خواہ بعض حروف کے دائیں، بائیں یا اوپر، نیچے کچھ علامتیں مقرر کرکے عربی حروف سے مطابق کرنے کی سعی کی گئی ہو پھر بھی ایک طرح کی آواز والے حروف میں جو امتیاز عربی میں ہے، وہ غیر عربی میں ممکن نہیں نیز غیر عربی میں رسمِ عثمانی کی رعایت بھی ہرگز نہ ہوسکے گی؛ اس لیے خالص غیر عربی میں قرآن شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ نابینا کے حفظ کے لیے جو نصاب (بریل کوڈ) تیارکیاگیا ہے، وہ حفظ کے لیے ”تلقن“ کا ایک ذریعہ تو ہے، جس کی وجہ نابینا شخص دوسرے حافظ کا محتاج نہیں رہتا ؛ مگر اسے مصحف یعنی قرآن مجید ہرگز نہیں کہا جائے گا۔

 

$$$

 

-----------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء